ملک کے 14 ویں صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ آج 9 مارچ کو ہوگی مقابلہ    آصف علی زرداری اور محمود اچکزئی کے درمیان ھوگا تیسرے صدراتی امیدوار کے کاغذات مسترد

تحریر    اصغر علی مبارک

پاکستان کے 6 منتخب ایوان سے صدر کا انتخاب    ملک کے 14 ویں صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ آج 9 مارچ کو ہوگی۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج صدرِ مملکت کا انتخاب کرے گا۔پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ، ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی یعنی خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے اراکین کی کُل تعداد 1185 ہے۔ ان میں سے سینیٹ ارکان کی تعداد 100، قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 336 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کُل ارکان کی تعداد 749 ہے۔سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 100 ارکان پر مشتمل اس ایوان میں چاروں صوبوں کے کُل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 4 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔ سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ پاکستان میں قومی اسمبلی کی کُل 336 نشستیں ہیں جن میں سے 266 عمومی نشستیں، 60 خواتین کے لیے اور 10 نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ 266 عمومی نشستوں پر عام انتخابات ہوئے ہیں۔ انضمام شدہ اضلاع کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں گزشتہ 12 سے کم کر کے 6 کر دی گئی ہیں۔ یہ ایڈجسٹمنٹ 25 ویں آئینی ترمیم کی دفعات کے مطابق ہے، جس کے بعد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں ضم ہو گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ان 266 حلقوں میں پنجاب کی 141، سندھ کی 61، خیبرپختونخوا کی 45، بلوچستان کی 16 اور اسلام آباد کی 3 جنرل نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی کے 336 ارکان کے ایوان میں 60 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ ان 60 مخصوص نشستوں میں سے پنجاب کے حصے میں 32، سندھ کے حصے میں 14، خیبر پختونخوا کے حصے میں 10 جبکہ بلوچستان کے حصے میں 4 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں مگر یہ اقلیتی نشستیں صوبوں کے بجائے پورے پاکستان کے لیے مخصوص ہیں۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 749 نشستوں میں سے عمومی نشستوں کی تعداد 593 جبکہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 156 ہے۔ یعنی جیسے قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے 266 پر براہِ راست انتخاب ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی چاروں صوبوں کی 749 نشستوں میں سے 593 پر عوام براہِ راست ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 593 انتخابی حلقوں کو ملایا جائے تو پاکستان میں کُل انتخابی حلقوں کی تعداد 859 بنتی ہے جہاں براہِ راست عام انتخابات کا انعقاد آئینی ضرورت ہے۔ پنجاب اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 371 ہے، جن میں سے 297 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 66 اور اقلیتوں کے لیے 8 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ سندھ اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 168 ہے۔ جن میں سے 130 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 29 اور اقلیتوں کے لیے 9 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 145 ہے۔ جن میں سے 115 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 26 اور اقلیتوں کے لیے 3 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔بلوچستان اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 65 ہے۔ جن میں سے 51 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 11 اور اقلیتوں کے لیے 3 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ایوانِ بالا یعنی سینیٹ، ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کے کُل اراکین صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج ہیں۔ یعنی ان 6 ایوانوں کے 1185 ارکان (سینیٹ کے 100، قومی اسمبلی کے 336، پنجاب اسمبلی کے 371، سندھ اسمبلی کے 168، خیبر پختونخوا اسمبلی کے 124 جبکہ بلوچستان اسمبلی کے 65) صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔صدارتی انتخاب سے متعلق آئین میں واضح کیا گیا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کا ایک ایک ووٹ ہوگا لیکن چاروں صوبائی اسمبلیوں کا ووٹ، ملک میں ارکان کی تعداد کے لحاظ سے سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر تصور کیا جائے گا۔ یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے تو باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل ووٹ بھی 65 ہی شمار ہوں گے۔اس کے لیے طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 371 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں پنجاب اسمبلی میں 5.70 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔سندھ اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 168 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں سندھ اسمبلی میں 2.58 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔خیبرپختونخوا اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 145 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں خیبر پختونخوا اسمبلی میں 2.23 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔
بلوچستان اسمبلی کے کُل ارکان کی تعداد 65 ہے اس لیے یہاں ہر رکن کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں میں مذکورہ فارمولے کے استعمال کرنے کے بعد ان تینوں صوبائی اسمبلیوں کے اپنے اپنے کُل ووٹوں کی تعداد بھی 65 ہی ہوگی۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدارتی انتخاب میں کُل ووٹوں کی تعداد قومی اسمبلی کے 336، سینیٹ کے 100 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 260 ووٹوں (65 ضرب 4) کو ملا کر 696 بنے گی۔ صدارتی انتخاب میں ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں جیتنے والے امیدوار کے لیے 349 ووٹ لینا لازم ہے گویا کہ 349 ایک آئیڈیل وننگ گولڈن نمبر ہوگا۔ اگر صدارتی انتخاب کے وقت ملک کے تمام ایوانوں میں تمام 1185 ارکان کی تعداد پوری ہو تو یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہوگی، اس لیے 1185 اراکین کا الیکٹورل کالج ایک آئیڈیل الیکٹورل کالج کہلائے گا۔ ملک کے صدر کے انتخاب کے قواعد و ضوابط کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کہیں بھی، کسی بھی ایوان کے کُل ووٹوں یا موجود ووٹوں کا ذکر نہیں بلکہ ڈالے گئے ووٹوں کا ذکر ہے۔ سینیٹ میں کُل ارکان اور کُل ووٹوں کی تعداد 100 ہے۔ اراکین کے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے کے بعد سینیٹ کی 6 نشستیں خالی ہو چکی ہیں جن پر انتخابات 14 مارچ کو ہوں گے۔ ان میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو اور جام مہتاب ڈہر، قومی اسمبلی کے حلقوں سے الیکشن جیتنے والے یوسف رضا گیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں جیتنے والے سرفراز بگٹی اور شہزادہ احمد عمر شامل ہیں، جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جن کا ایک سینیٹر ہے۔ اب اگر تمام موجودہ سینیٹرز صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالتے ہیں تو موجودہ ووٹوں اور کُل ووٹوں کی تعداد دونوں ہی 93 ہوگی، تاہم اگر بالفرض 2 ارکان ووٹ نہ ڈالیں تو ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد 91 یعنی موجود ووٹوں 93 سے مختلف ہوجائے گی۔ قومی اسمبلی میں کُل ارکان اور کُل ووٹوں کی تعداد 336 ہے۔ ایک حلقے این اے 8 میں انتخاب نہیں ہوا، جبکہ این اے 146 کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ یہ تعداد 334 رہ جاتی ہے جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر ارکان کو 13 مارچ تک حلف اٹھانے سے روکنے کا حکم دے رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن نے خواتین کی باقی 20 اور اقلیتوں کی تین مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو جاری کر دی تھیں۔ یوں اس وقت قومی اسمبلی میں موجود اور ڈالے جانے والے ممکنہ ووٹوں کی تعداد 311 ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں کُل ارکان اور کُل ووٹوں کی تعداد 65 ہے۔ یہاں الیکشن کمیشن نے 3 نشستوں پر نتائج روک رکھے ہیں۔ یوں بلوچستان اسمبلی میں کُل ووٹوں کی تعداد 65، موجودہ ووٹوں کی تعداد 62 ہوگی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد 145 ہے۔ یہاں پر 2 نشستوں پر انتخاب نہیں ہوا جبکہ الیکشن کمیشن نے 4 صوبائی حلقوں کے نتائج روک رکھے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے نتائج مکمل ہونے پر ایک اقلیتی نشست کا کوٹا بھی دیا جائے گا۔ اس طرح 138 نشستیں بنتی ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر اقلیتوں کی 3 اور خواتین کی 20 مخصوص نشستوں پر 13 مارچ تک حکم امتناع دے رکھا ہے۔ یہاں پر ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 115 ہے۔ سندھ اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد 168 ہے۔ یہاں 2 نشستوں پر نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا ایک نشست پر کامیاب امیدوار کی وفات اور ایک پر امیدوار نے اخراجات کی تفصیل جمع نہیں کرائی۔ اس طرح یہ تعداد 164 رہ گئی۔ جبکہ جی ڈی اے نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے 3 اراکین ہیں اور انہوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا ہے۔ یعنی یہاں پر ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 161 ہے۔ پنجاب اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد 371 ہے۔ ایک حلقے میں الیکشن نہیں ہوا، 4 حلقوں کے نوٹی فکیشن الیکشن کمیشن نے روک رکھے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں سے ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 366 ہے۔ لیکن تادم تحریر سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کے خلاف درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں آج سماعت ہونی ہے۔
صدارتی انتخاب کے آئیڈیل الیکٹورل کالج میں 1185 ارکان تصور کیے جاتے ہیں تاہم اس وقت سینیٹ ارکان کی تعداد 100 کے بجائے 93 جبکہ قومی اسمبلی ارکان کی تعداد 336 کے بجائے 311 ہے۔ پنجاب اسمبلی میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ ڈالنے والے، اہل ارکان کی تعداد 371 کے بجائے 366، سندھ اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 168کے بجائے 161، خیبر پختونخوا اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 145 کے بجائے 115 جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 65 کے بجائے 62 ہے۔ گویا آئیڈیل الیکٹورل کالج کے 77 ارکان اس وقت موجود نہیں اور یوں ملک کے حالیہ صدارتی انتخاب کے موجودہ الیکٹورل کالج میں 1185 نہیں بلکہ 1108 ارکان شمار کیے جائیں گے۔ اہم ترین اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں ارکان کی تعداد کے حوالے سے سب سے چھوٹی اسمبلی بلوچستان اسمبلی میں اس وقت اہل ووٹرز اور ممکنہ طور پر ووٹ ڈالنے والے ارکان کی تعداد 62 ہے۔ یوں باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹرز کی تعداد 62 ہی مانی جائے گی۔ صدارتی انتخاب کے آئیڈیل الیکٹورل کالج 1185 ارکان کی موجودہ الیکٹورل کالج 1108 ارکان میں تبدیلی کی صورت میں آئیڈیل ووٹس بھی موجودہ ووٹس میں بدل جائیں گے۔ سینیٹ کے 93، قومی اسمبلی کے 311 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 248 (62 ضرب 4) ووٹ جمع کرنے کے بعد یہ تعداد 652 بنتی ہے۔ یوں آئیڈیل ووٹس 696 اب موجودہ ووٹس 652 میں تبدیل ہوجائیں گے۔ کُل ووٹوں کی تبدیلی کی صورت میں وننگ گولڈن نمبر بھی اب 349 کے بجائے 327 ہوجائے گا۔ یعنی ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں اگر صدارتی انتخاب کے لیے موجودہ الیکٹورل کالج کے تمام 1108 ارکان ووٹ ڈالیں تو موجودہ ووٹس 652 میں سے 327 ووٹ لینے والا ملک کا صدر منتخب ہوجائے گا۔ ایک ایسی صورتحال میں جب ملک کی سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 65 کے بجائے 62 ہے تو اب باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کُل نہیں بلکہ اہل ووٹوں کو، 65 نہیں بلکہ 62 سے تقسیم کیا جائے گا۔ پنجاب اسمبلی میں ووٹ کے لیے اہل ارکان کی تعداد 366 ہے اور اسے 62 سے تقسیم کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی کے 5.9 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ سندھ اسمبلی میں ووٹ کے لیے ارکان کی تعداد 161 ہے اور اسے 62 سے تقسیم کرنے کے بعد سندھ اسمبلی کے 2.59 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں ووٹ کے لیے اہل ارکان کی تعداد 115 ہے اور اسے 62 سے تقسیم کرنے کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کے 1.85 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ سینیٹ کے اہل 93 ووٹر اراکین میں سے جماعت اسلامی کا ایک، مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 5، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 21، تحریکِ انصاف ارکان کی تعداد 24، آزاد سینیٹرز کی تعداد 23، ایم کیو ایم پاکستان ارکان کی تعداد 3، جمعیت علمائے اسلام کے ارکان کی تعداد 4، نیشنل پارٹی ارکان کی تعداد 3، مسلم لیگ (ف) کے ایک رکن، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن، عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین کی تعداد 2، بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی تعداد 4 اور پاکستان مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔ قومی اسمبلی کے اہل 311 ووٹرز اراکین میں سے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 123، سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 82، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 73، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے ارکان کی تعداد 22، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین کی تعداد 11، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی تعداد 5، استحکام پاکستان پارٹی کے اراکین کی تعداد 4، پاکستان مسلم لیگ (ضیا) کا ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا ایک، نیشنل پارٹی کا ایک، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک اور آزاد امیدوارکی تعداد 9 ہے، جو کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔ نجاب اسمبلی کے 366 اہل ووٹرز اراکین میں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 224 سنی اتحاد کونسل کے 106، پیپلزپارٹی کے 16، مسلم لیگ (ق) کے 11، استحکام پاکستان پارٹی کے 6، تحریک لبیک پاکستان کا ایک، مسلم لیگ (ضیا) کا ایک اور مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کی ایک نشست ہے۔ سندھ اسمبلی کے 161 اہل ووٹرز اراکین میں سے پیپلز پارٹی کے 116، ایم کیو ایم کے 37، (پی ٹی آئی حمایت یافتہ) آزاد اراکین 9 ہیں جبکہ جی ڈی اے کے 3 اراکین نے حلف نہیں اٹھایا، 2 نشستوں پر نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا ایک نشست پر کامیاب امیدوار کی وفات اور ایک نشست پر امیدوار نے اخراجات کی تفصیل جمع نہیں کرائی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے 115 اہل ووٹرز ارکین میں سے سنی اتحاد کونسل کے 90، جے یو آئی (ف) کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 6، پیپلزپارٹی کے 4، جماعت اسلامی کے 3، عوامی نیشنل پارٹی کے 2 اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے بھی 2 رکن ہیں۔ 2 نشستوں پر انتخاب نہیں ہوا جبکہ الیکشن کمیشن نے 4 صوبائی حلقوں کے نتائج روک رکھے ہیں اور نتائج مکمل ہونے پر ایک اقلیتی نشست کا کوٹا بھی دیا جائے گا۔ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر اقلیتوں کی 20 اور خواتین کی 3 مخصوص نشستوں پر 13 مارچ تک حکم امتناع دے رکھا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے 62 اہل ووٹرز اراکین میں سے پیپلزپارٹی کے 17، مسلم لیگ (ن) کے 16، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 12، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کے 3، جماعت اسلامی کا ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک، حق دو تحریک کا ایک اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک رکن ہے۔ الیکشن کمیشن نے 3 صوبائی نشستوں پر نتائج روک رکھے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں بننے والے نئے حکمران اتحاد میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی پر مشتمل ہے، جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی بھی آصف زرداری کو ووٹ دے گی۔ اس وقت اپوزیشن میں سنی اتحاد کونسل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اب تک ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے ووٹ کاسٹ نہ کیے جانے کی توقع ہے۔ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے آزاد امیدوار ملا کر کل 15، پاکستان پیپلزپارٹی کے آزاد اراکین ملا کر 23، ایم کیو ایم پاکستان کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، عوامی نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ ووٹ آصف زرداری کو ملیں گے جبکہ دلاور گروپ کے 4 ووٹ، پاکستان مسلم لیگ کا ایک بھی حکومتی اتحاد کو ملنے کے امکانات ہیں، اس طرح آصف زرداری باآسانی 53 ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ 2 آزاد اراکین کے کسی کو بھی مل سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز کی تعداد 25، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک سینیٹر کا ووٹ محمود اچکزئی کو 26 ووٹ ملنے کا امکان ہے جبکہ جے یو آئی (ف) کے 4 اور نیشنل پارٹی کے 3 ارکان کی جانب سے ووٹ کاسٹ نہ کیے جانے کا امکان ہے، مسلم لیگ (ف) اور جماعت اسلامی کا ایک ایک سینیٹر کسی کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 107، پاکستان پیپلزپارٹی کے 68، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4 اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ووٹ بھی حکومتی اتحاد کے امیدوار کو ملے گا، اس طرح آصف زرداری 207 ووٹ مل سکیں گے۔ قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی تعداد 82 ہے، اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن ہے۔ یوں محمود خان اچکزائی قومی اسمبلی میں 83 ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 7 کی جانب سے ووٹ نہ ڈالے جانے کا امکان ہے، جبکہ خفیہ رائے شماری میں پاکستان مسلم لیگ (ضیا) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا ووٹ کس بھی امیدوار کو مل سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد 9 ہے۔ خفیہ رائے شماری میں ان کا ووٹ کسی کو بھی مل سکتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 17، مسلم لیگ (ن) کے 16، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، عوامی نیشنل پارٹی کے 3 ووٹ ہیں، اس طرح صدر آصف زرداری کو بلوچستان اسمبلی سے 41 ووٹ مل سکتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 12 ارکان کی جانب سے ووٹ نہ دیے جانے کا امکان ہے۔جبکہ نیشنل پارٹی کے 4 ارکان، حق دو تحریک کا ایک اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک رکن ہے، ان کے ووٹ کسی بھی امیدوار کو دیے جاسکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں 1.85 ارکان کا ایک ووٹ
خیبر پختونخوا اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 90 ہے۔ یعنی 90 کو 1.85 سے تقسیم کیا جائے تو خیبر پختونخوا اسمبلی سے محمود اچکزئی 48.3 ووٹ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 6، پیپلزپارٹی کے 4، اے این پی کا ایک اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے 2 ووٹ حکومتی اتحاد کے امیدوار کو مل سکتے ہیں، اس طرح آصف زرداری کو 13 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ 13 کو 1.85 پر تقسیم کیا جائے تو خیبر پختونخوا اسمبلی سے انہیں 7.02 ووٹ باآسانی مل سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں جماعت اسلامی کے 3 ووٹ کسی کو بھی مل سکتے ہیں جو 1.62 بنتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 116، ایم کیو ایم کے 37 ووٹ کو ملا کر حکومتی ارکان کی کل تعداد 153 ہے۔ یعنی 153 کو 2.71 ارکان پر تقسیم کیا جائے تو سندھ اسمبلی سے آصف زرداری 56.45 ووٹ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم عدالت نے سندھ کی 3 مخصوص نشستوں کے ووٹ کو فیصلہ کن ہونے پر صدارتی انتخاب میں کاؤنٹ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سندھ اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے 9 ووٹ ہے۔ یعنی 2.71 پر تقسیم کیا جائے تو 3.32 کا عدد حاصل ہوتا ہے، یوں بظاہر محمود اچکزئی سندھ اسمبلی سے 3 ووٹ لے سکیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے ارکان کی تعداد 224، پیپلزپارٹی کے 16، مسلم لیگ (ق) کے 11، استحکام پاکستان پارٹی کے 6 اراکین ہے، یہ کل 257 ووٹ بنتے ہیں، اگر 5.9 سے تقسیم کیا جائے تو 43.55 ووٹ آصف زرداری کو مل سکتے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے 106، مجلس وحدت مسلمین کا ایک ووٹ محمود اچکزئی کو ملے گا، 5.9 سے تقسیم کرنے پر انہیں پنجاب اسمبلی سے 18.13 ووٹ ملیں گے۔جبکہ مسلم لیگ (ضیا) اور تحریک لبیک کا ووٹ کسی کو بھی مل سکتا ہے۔ شہباز شریف کے زیر قیادت حکمران اتحاد کے امیدوار آصف زرداری اگر اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں کے تمام ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو انہیں سینیٹ سے 53، قومی اسمبلی سے 207، بلوچستان اسمبلی سے 41، خیبر پختونخوا اسمبلی سے 7، سندھ اسمبلی سے 56 اور پنجاب اسمبلی سے 43.55 یعنی کُل ملا کر 407 ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود اچکزئی اگر اپنی اتحادی جماعتوں کے تمام ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سینیٹ سے 26، قومی اسمبلی سے 83، بلوچستان اسمبلی سے 1، خیبر پختونخوا اسمبلی سے 48.3 جبکہ پنجاب اسمبلی سے 18 ووٹ یعنی کُل ملا کر 176 ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے کہ صدارتی انتخاب کے ووٹنگ کے طریقہ کار میں کل ووٹوں، موجود ووٹوں یا اہل ووٹوں کے بجائے ’ڈالے گئے‘ ووٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ یعنی فرض کیجیے کہ بلوچستان اسمبلی میں 60 ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 300 تو پنجاب اسمبلی کے 5 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔ لیکن اگر بلوچستان اسمبلی میں 30 ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 300 تو پھر پنجاب اسمبلی کے 10 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہوگا یعنی ہر صورت میں ووٹوں کی گنتی کا فارمولا پولنگ کے بعد ہی طے کیا جائے گا۔ صدارتی انتخاب کے لیے 1108 ارکان کا الیکٹورل کالج ہے۔ ان 1108 ارکان کے کُل ووٹوں کی تعداد 652 ہے۔ اگر مقابلہ ون ٹو ون طے پائے تو صدر منتخب ہونے کے لیے 327 ارکان کے ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ 652 کے الیکٹورل کالج میں پیپلزپارٹی کے آصف زرداری 407 ووٹوں کے ساتھ برتری لیے نظر آتے ہیں تاہم اپوزیشن کے امیدوار کے کُل 176 ووٹ ہوسکتے تھے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر مملکت کا انتخاب جاری کردہ شیڈول کے مطابق ہی کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر مملکیت انتخابات میں حکومتی اتحاد کے امیدوار آصف زرداری جب کہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے محمود خان اچکزئی امیدوار ہیں۔ 14 ویں صدر مملکت کے انتخاب کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں اس کے تمام ارکان نے شرکت کی۔ ملکی تاریخ کے 14ویں صدر کا انتخاب شیڈول کے مطابق ہوں گے، محمود خان اچکزئی نے الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست دی تھی۔ دوسری جانب سے سنی اتحاد کونسل کے نامزد امیدوار اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ’الیکٹورل کالج نا مکمل‘ قرار دیتے ہوئے ملک کے 14 ویں صدر کا کل ہونے والا انتخاب ملتوی کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھ دیا جب کہ الیکشن کمیشن نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انتخاب شیڈول کے مطابق کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کی مذمت کی۔ سنی اتحاد کونسل کے چیف وہپ نے کہا کہ پارٹی صدر مملکت کے انتخاب میں محمود اچکزئی کی بھرپور حمایت کرے گی۔محمود اچکزئی نے الیکشن کمیشن کو لکھے اپنے خط میں کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی متعدد مخصوص نشستیں ابھی خالی ہیں، الیکٹورل کالج نا مکمل ہے، اس کی تکمیل تک الیکشن ملتوی کیا جائے۔اس کے علاوہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں مکمل نہیں ہیں، اس لیے صدارتی الیکشن ملتوی کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی تمام پارٹیوں کے سینئر رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے، کمیٹی میں رضاربانی، مشاہدحسین سید، فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کے سینئر اراکین کو شامل کیا جائے۔ محمودخان اچکزئی نے کہا کہ پارلیمان میں ایسے لوگ ہیں جو خود فیصلے کر سکتے ہیں، ہم کیوں اپنے کپڑے عدالتوں میں جاکر دھوئیں، پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ پاکستان کو چلاسکتے ہیں، ممکن ہے صدارتی انتخابات سے ہٹ کر مزید کام کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ میراایمان ہے نوازشریف کا دل بھی کہتاہوگا کہ محمود کو ووٹ دو۔پیپلز پارٹی نے صدارتی امیدوار محمود محمود خان اچکزئی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کے مطالبے کو غیرجمہوری قرار دیتے ہوئے اس عمل کو ملک میں آئینی عھدے کی تکمیل کے عمل میں رخنہ ڈالنے اور جمھوریت کی پٹڑی کو ڈی ریل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پی ٹی آ ئی اور سنی اتحاد کونسل ملک کو بحران کی طرف دکھیل کر جمھوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر ملک میں جمہوریت کی پٹڑی کو ڈی ریل کرنے کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشتوں کے بغیر جب شہباز شریف اتحادی جماعتوں کی حمایت سے وزیراعظم بن سکتے ہیں تو آصف علی زرداری بھی صدر مملکت بن سکتے ہیں، اگر مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو مل بھی جاتیں تو بھی محمود خان اچکزئی صدر ملکت منتخب نہیں ہوسکتے تھے۔نثار کھوڑو نے کہا کے محمود خان اچکزئی کو صدر کے لیے سینیٹ، پارلیمنٹ اور تمام اسمبلیوں کے الیکٹورل کالج میں ووٹوں کی وہ اکثریت حاصل ہی نہیں ہے اور پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل محمود خان اچکزئی کی صدر کے انتخاب میں شکست یقینی دیکھ کر صدارتی انتخابات کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدراتی انتخابات کے لیے الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد انتخابات ملتوی ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا جب کہ الیکشن کمیشن کیجانب سے مخصوص نشستوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد الیکٹورل کالج مکمل ہوچکا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے اراکین کے ووٹ نہ دینے کے باوجود بھی آصف علی زرداری 9 مارچ کو سینیٹ، پارلیمنٹ اور تمام اسمبلیوں کے الکٹورل کالج سے بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر دوسری مرتبہ صدر مملکت بن جائیں گے، اس لیے صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کے مطالبے کرکے جمہوری اور آئینی عمل کو کمزور کرنے کی سازش نہ کی جائے۔دوسری جانب صدارتی امیدوار اصغر علی مبارک نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابات کے خلاف آئینی پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے آصف علی زرداری اور محمود خان اچکزئی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کی استدعا کی ہےجو کہ تقاضے پورے نہیں کر رہے۔ اصغر علی مبارک، امیدوار برائے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان درخواست گزارنے راجہ سکندر سلطان ریٹرننگ آفیسر/چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان برائے الیکشن صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان، آصف علی زرداری، اور محمود خان اچکزئی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت آئینی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کررہاہوں

درخواست گزار صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عہدے کے امیدواروں میں سے ایک ہے اور کاغذات نامزدگی تجویز کنندہ اورکنندہ پیش ہوئے۔ کاغذات نامزدگی مرحلے پر محمود خان اچکزئی  دیگر امیدواروں کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ تجویز کنندہ کے شناختی کارڈز کی کاپیاں تصدیق شدہ نہیں تھیں لیکن ان کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے جبکہ اسی معاملے پر درخواست گزار کے کاغذات نامزدگی کومسترد کر دیا گیا۔ امیدوار آصف علی زرداری کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے اور جانچ پڑتال کے وقت پیش نہیں ہوئے لیکن ان کے کاغذات نامزدگی کو منظور کر لیا گیا جس پر درخواست گزار نے تحریری طور پر اعتراض اٹھایا اور درخواست کی اسکروٹنی سے قبل تجویز کنندہ اور حمایتی کو تبدیل کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے تحریری درخواست دی گئی لیکن درخواست گزار کی درخواست پر کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ صدارتی امیدوار درخواست گزار نے 2002 سے 2024 تک عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر الیکشن حصہ لیا اور صدارتی الیکشن 2024 کے لیے امیدوار کی حیثیت کو اہل قرار دیا جیسا کہ بطور ممبر ذکر کیا گیا ہے۔ درخواست گزار پاکستان کا شہری ہے اور اس کا آئین میں درج بنیادی حق ہے۔ جمہوریہ پاکستان، 1973 کا الیکشن لڑنے کے لیے۔ دوسرے امیدوار محمود خان اچکزئی کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ تجویز کنندہ اور حمایتی کے شناختی کارڈ کی کاپیاں تصدیق شدہ نہیں تھیں لیکن ان کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے جبکہ اسی معاملے پر درخواست گزار کے مسترد کر دیے گئے. ایک اور امیدوار جناب آصف علی زرداری کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے پہلے اور جانچ پڑتال کے وقت جواب دہندگان کے سامنے پیش نہیں ہوئے لیکن ان کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے۔مندرجہ بالا گذارشات کے پیش نظر درخواست برائے مہربانی قبول کی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *