اسلام آباد(دیس نیوز) معروف ماہر تعلیم، مصنف، محقق اور شاعر ڈاکٹر محمد انور صابر کا مجموعہ کلام’’سراب ِدشت ِتمنا‘‘ شائع ہو گیا ہےجس کی علمی و ادبی حلقوں نے بھرپور پذیرائی کرتے ہوئے اسے شعری اسلوب اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے عصری تقاضوں کا عکاس اور ترجمان قرار دیا ہے ۔ مجموعہ کلام میں حمدیہ و نعتیہ کلام ،متنوع اور متفرق موضوعات پر مبنی پابند ،آزاد اور نثری نظمیں، غزلیات، قطعات اور فردیات شامل ہیں ۔اس کتاب کو بکس اینڈ ریڈرز ملتان نے شائع کیا ہے ۔ ڈاکٹر انور صابر 10 اگست1947 کو بھارت کے شہر جالندھرکی بستی حسین پور میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے بعد ابتدائی تعلیم جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی ۔ مختلف مقامات پر تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے 1975 میں گورنمنٹ صادق ایجرٹن( ایس ای )کالج بہاولپور کی ممتاز درسگاہ کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور بعد ازاں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ طویل عرصہ تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد 2008 میں کالج کے وائس پرنسپل اور صدر شعبہ اردو کے منصب سے ریٹائر ہوئے،جہاں انہوں نے کالج کے علمی و ادبی مجلے ’’نخلستانِ ادب ‘‘( صد سالہ تحریروں کا انتخاب) اور’’ خواجہ فرید نمبر‘‘ جیسے اہم شمارے شائع کئے ۔ علاوہ ازیں بہاولپور سے ’’حروف‘‘جیسے قومی سطح کے موقر ادبی رسالہ کے شریک مدیر بھی رہے ۔ وہ برس ہا برس’’اردو مجلس‘‘ بہاولپور جیسی فعال ادبی تنظیم کے معتمد رہے ۔ ڈاکٹر انور صابر کی دیگر تصانیف و تالیفات میں ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالہ پر مبنی کتاب’’پاکستان میں اردو غزل کا ارتقاء ‘‘ کے علاوہ شرح شعری ادب، بی اے کا اردو نصاب برائے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور شامل ہیں۔ ملک کے مختلف ادبی جریدوں میں ان کے متعدد تحقیقی و تنقیدی مضامین اور شعری و نثری تخلیقات بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے تازہ مجموعہ کلام’’سرابِ دشتِ تمنا‘‘ کا دیباچہ مصنف ، محقق،شاعر ،ناول نگار اور سابق صدر شعبہ اردو واقبالیات،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر شفیق احمد نے تحریر کیا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر انور صابر کے طرز کلام کو سراہتے ہوئے تحریر کیا کہ ڈاکٹر انور صابر داخلی کیفیات کو بڑی سہولت اور سادگی سے بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور معاشرے کے خارجی نشیب وفراز، تجربات و مشاہدات اور زندگی کی ہمہ رنگی کے شعری اظہار میں مہارت نظر آتی ہے۔مشہور مصنف ، نقاد، شاعر اور منظوم سیرت نگار خورشید ناظر نے ’’اک نئے طرز تکلم سے فضا مہکی ہے‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے بیان کیا کہ ڈاکٹر انور صابر کی تخلیقات کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ خود کو اصناف ادب کے الگ جہان میں محسوس کیا۔ان میں یہ انفرادیت صرف ان کی لفظیات کے سبب حاصل نہیں بلکہ اپنی منظومات کے لئے چونکا دینے والےموضوعات کے انتخاب اور اپنے اشعار کے لئے تخیل کی بلندی نے انہیں بہت عمدہ شاعر کے مقام پر فائز کر دیا ہے۔انہوں نے میدان نظم و نثر میں جو کچھ لکھا ان کی تحریروں کی ایک ایک سطر اپنے قارئین کو عمدگی اور ترفع کی ایک اچھوتی خوشبو سے سرشار کرتی ہے۔معروف ماہر تعلم اور مصنف ڈاکٹر خالق تنویر نے مجموعہ کلام پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر انور صابر کا مجموعہ کلام نصف صدی پرمحیط ریاضت کا ثمر ہے۔ان کے تخلیقی سفر میں ایسی ہم آہنگی نظر آتی ہے جو تہذیب ذات اور حس توازن کی کوکھ سے پھوٹتی ہے ۔اس مجموعہ نے ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو بالخصوص وہ فنی جمال دیا جس سے پہلے ہماری شاعری بالعموم محروم ہے۔ علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر ریاض حسین بلوچ کے مطابق اس مجموعہ میں فن شعر کے تمام محاسن و موضوعات تو موجود ہی ہیں مگر نکتہ فہم قاری کو ان کے ہاں صاف اور قابل فہم زبان میں معاصر انفرادی اور اجتماعی زندگی کہیں احساس کرب و محرومی سے مضمحل اور کہیں امید و رجا سے توانا نظر آئے گی۔