دریائے جہلم  کے کنارے ” جنت کا ٹکڑا

کالم نویس  نواز رضا

دریائے جہلم  کے کنارے ” جنت کا ٹکڑا” 

آکاب سکول آف دی بلائنڈدیکھنے کا موقع ملا میرے لئے یہ کسی بلائنڈ سکول کا پہلا دورہ تھا میں  غالبا” ربع صدی بعد  میر پور گیا جب سورج اپنی تمام تر رعانیوں کو سمیٹ کر منگلہ جھیل کے اس پار غروب ہو رہا تھا ہمارا قافلہ میر پور میں دریائے جہلم کے کنارے کنارے کے ساتھ بنائے گئے بائی پاس کےذریعے آکاب سکول آف دی بلائنڈ پہنچے  لہذا ہم شام کو  میلوں پھیلے ہوئے دریائے جہلم کی ہلکی جھلک ہی دیکھ سکے اسی طرح نصف شب کو شہر کے اندر سے واپسی ہوئی تو پورا شہر سو رہا تھا اب کی بار مجھے   یوکے پریس کلب کے صدر ارشد رچیال اور  برمنگھم کے ممتاز صحافی ساجد یوسف کی دعوت پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے  صدر محمد افضل بٹ کے ہمراہ ” آکاب سکول فار دی بلائنڈ” کا دورہ کرنے کا موقع ملا ۔ ( افضل بٹ  کے ہمراہ کسی سماجی تقریب یا پیشہ ورانہ اکٹھ ہو بعض شیطان صفت لوگوں کو پرابلم ہو جاتا ہے میرا گروپ 1986 سے قائم ہے یہ نظریاتی تقسیم ہے ماضی قریب میں تمام پی ایف یوجیز کے گروپوں کو اکھٹا کرنے کی شعوری کوشش  ہوئی جس میں اس وقت کے پی ایف یو جے دستور کے صدر ادریس بختیار نے اپنا گروپ ضم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا یہ الگ بات ہے کہ برنا گروپ جو تین  گروپوں میں منقسم تھا کے اکھٹا نہ ہونے  کے  باعث اتحاد کی بات آگے نہ چل سکی اب کچھ شیطان صفت لوگوں محمد افضل بٹ اور محمد نواز رضا کا کسی سماجی تقریب جو ایک نوبل کاز کے لئے منعقد  ہوئی ہضم نہیں ہو پا رہی  یہ پیرا نامکمل پوسٹ پر شیطان تبصروں کی وجہ سے درمیان میں شامل کرنا پڑا جب کہ میں اپنی تمام تر تحریر آکاب سکول فار دی بلائنڈ تک ہی محدود رکھنا چاہتا تھا افضل بٹ گروپ کو برنا لکھوں تو ہمارے کچھ دوستوں تکلیف ہوتی ہے افضل بٹ گروپ لکھوں تو  افضل بٹ ناراض۔ برنا گروپ کے تین وارث خود ہی فیصلہ کر لیں)سوفد میں ممتاز صحافی ، ادیب ، شاعر اور محقق سجاد اظہر ، راولپنڈی اسلام آباد  یونین آف جرنلسٹس کے سینئر نائب صدر راجہ بشیر عثمانی ، نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے جوائنٹ سیکریٹری طلعت فاروق ، تراب کھوکھر ، سجاد لاکھا ، خالد مجید ، ثاقب راٹھور ، اظہار نیازی اور راجہ شوکت شامل تھے ۔ آکاب اسکول کے پرنسپل اور روح رواں پروفیسر محمد الیاس ایوب نے معزز مہمانوں کا سکول پہنچنے پر استقبال کیا ، سکول کے بچوں نے  مہمانوں  کو پھول پیش کئے ، معزز مہمانوں  کو سکول کے مختلف شعبوں اور کلاس رومز کا وزٹ کروایا گیا اور انہیں نابینا افراد کے لیے ڈیزائن شدہ بریل ایجوکیشن سسٹم کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔ محمد افضل بٹ ،  بندہ ناچیز اور دیگر سینئر صحافیوں نے نابینا افراد کے لئے قائم کردہ شاندار سکول کے قیام اور انتظام پروفیسر محمد الیاس ایوب کی خدمات کو سراہا
آکاب اسکول فار بلائنڈ آزاد کشمیر میں بصارت سے محروم بچوں کےلیے قائم سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے جو نابینا بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے عظیم مشن پر عمل پیرا ہے ۔ آکاب اسکول فار دی بلائنڈ کے پرنسپل اور ادارے کی روح رواں پروفیسر محمد الیاس ایوب خود پیدائشی طور پر بینائی سے محروم ہیں لیکن انہوں نے اپنی اس محرومی کو کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا آپ یقین جانیں پچھلے ان سے حلقہ ارباب ذوق اسلم آباد کی محفل میں ملاقات  ہوئی ان کی خود اعتمادی  اور خوبصورت گفتگو نے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ بینائی سے محروم ہیں اور وہ ایک بہت بڑے ادارے کو چلا رہے ہیں وہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسان اپنے تمام اعضاء اور مکمل حواس کے ساتھ بھی جب میدان عمل میں نکلتا ہے تو قدم قدم پر مشکلات اور پریشانیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں۔ اس معاشرے میں ایک نابینا شخص نے عزم، حوصلے ، ہمت اور کمٹ منٹ کی ایسی مثال قائم کی جس  کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ان کی ذاتی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو کامیابیوں اور کامرانیوں سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان کی بہترین یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی اور سپیشل ایجوکیشن اور آزاد کشمیر یونیورسٹی سے اسلامیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اس وقت آزاد کشمیر کی عظیم اور قدیم درسگاہ گورنمنٹ کالج میرپور میں انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ پروفیسر محمد الیاس ایوب کی عظمت، حوصلے اور ہمت کی داستان ان کی ذاتی کامیابیوں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اپنی ذاتی زندگی کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اب  آزاد کشمیر کے نابینا  بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کر کے انہیں معاشرے کا کار آمد  حصہ بنائیں گے۔ علم، شناخت اور روزگار کو اپنی جدوجہد کا محور و مرکز بنا کر انہوں نے ایک بچے اور ایک استاد سے کرائے کی عمارت میں ” آکاب اسکول فار دی بلائنڈ ” کی بنیاد رکھی ۔ الحمداللہ آج خالق آباد کے مقام پر آکاب کمپلیکس میں تقریبا” ڈیڑھ سو سے زائد بچے زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو رہے ہیں۔ آکاب اسکول فار دی بلائنڈ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس ادارے کے ایک نابینا بچے نے پاکستان کی پچہتر سالہ تاریخ میں پہلی بارانٹرمیڈیٹ میں بورڈ ٹاپ کیا اور بعد ازاں سکالر شپ پر امریکی کی ایک معروف یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی ۔
آکاب اسکول فار دی بلائنڈ کی روح رواں پروفیسر محمد الیاس ایوب کی عظیم خدمات کے اعتراف میں ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے “تمغہ امتیاز”  سے نوازا گیا ، ان کو یہ اعزاز ان کی نابینا بچوں کی تعلم و تربیت اور نابینا افراد کی فلاح و بہبود کےلئے خدمات کے صلے میں صدر پاکستان کی جانب سے دیا گیا۔ پروفیسر محمد الیاس ایوب کو یہ اعزاز یوم پاکستان کے موقع پر  گورنر ہاوس لاہور میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں دیا گیا۔  ایک نابینا شخص نے عزم، حوصلے ، ہمت اور کمٹ منٹ کی ایسی مثال قائم کی نظیر تلاش کرنا بہت مشکل ہوگا۔ تقریب میں جہاں نابینا بچوں سے ملاقات طے تھی لیکن اس کے بادشاہ کا انعقاد  تھا لیکن  تقریب کےانعقاد میں خاصا وقت لگ گیا لہذا میرمحفل تیمور اسلم کو ہی اپنے اشعار سے محفل کو گرانے ک موقع ملا افضل بٹ اور میں نے مختصر گفتگو کی اور سکول کے طلبا کی آواز بننے کی یقین دہانی کرائی سکول کےروح رواں پروفیسر محمد الیاس ایوب نے جچے تلے الفاظ میں تعلیم یافتہ نابیناافراد کا کیس پیش کیا اورحکومت سے استدعا کی تعلیم یافتہ نابینا افراد کے روزگار کی ضمانت دی جائے نابینا افراد کرپشن سے پاک معاشرہ قائم کرنے میں موثر کر دار ادا کر سکتے ہیں پروفیسر تیمور حسن  تیمورجو مشاعرہ لوٹنے کے لئے خاص طور پر لاہور سے میرپور آئے  نے کم و بیش پون گھنٹہ اپنے کلام کا جادو جگایا اور شرکاء محفل سے خوب داد  حاصل کی یہ بات قابل ذکر ہے ڈاکٹر تیمور حسن تیمور خود بھی نابینا ہیں  اور لاہور کے کالج میں پڑھاتے ہیں اس تقریب کی خاص  بات یہ ہے تقریب کے میزبان ارشد رچیال  دانستہ کیمرے کی آنکھ سے اوجھل رہے ان کی تمام تر توجہ تقریب کے انتظامات پر مرکوز رہی رات کے پچھلے پہر تقریب کا اختتام ہوا تو پورا قافلہ میر پور کے سینئر صحافی ظفر مغل کی عیادت کے لئے ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا  سینئر صحافی شبیر راجوروی کو استقبال کے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی مجھے افسوس ہے کہ میں ظفر مغل کے گھر کی سیڑھیاں چڑھنے سے عاجز رہا اس لئے اپنے دوست کی عیادت نہ کر سکا
ڈاکٹر تیمور حسن تیمور نے اپنےاشعار پر شرکاء محفل سے خوب داد حاصل کی  > موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا ترے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں

اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں

مجھ میں اور اس میں صرف مقدر کا فرق ہے
ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں

اس کی تو سوچ دنیا میں جس کا کوئی نہیں
تو کس لیے اداس ہے تیرا تو میں بھی ہوں

اک ایک کر کے ڈوبتے تارے بجھا گئے
مجھ کو بھی ڈوبنا ہے ستارہ تو میں بھی ہوں

اک آئنے میں دیکھ کے آیا ہے یہ خیال
میں کیوں نہ اس سے کہہ دوں کہ تجھ سا تو میں بھی ہوں
> مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا
باتوں سے میرا دل نہ لبھا شہر کو بچا

میرے تحفظات حفاظت سے ہیں جڑے
میرے تحفظات مٹا شہر کو بچا

تو اس لیے ہے شہر کا حاکم کہ شہر ہے
اس کی بقا میں تیری بقا شہر کو بچا

تو جاگ جائے گا تو سبھی جاگ جائیں گے
اے شہریار جاگ ذرا شہر کو بچا

تو چاہتا ہے گھر ترا محفوظ ہو اگر
پھر صرف اپنا گھر نہ بچا شہر کو بچا

کوئی نہیں بچانے کو آگے بڑھا حضور
ہر اک نے دوسرے سے کہا شہر کو بچا
لگتا ہے لوگ اب نہ بچا پائیں گے اسے
اللہ مدد کو تو مری آ شہر کو بچا
تاریخ دان لکھے گا تیمورؔ یہ ضرور
اک شخص تھا جو کہتا رہا شہر کو بچا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *